ارسطو کا فلسفہ ملوکیت اور آمریت

Arstu Ka Falsfa.jpg
بادشاہت میں ایک ہی فرد تمام اختیارات Ù„Û’ کر Ø+کمران بن بیٹھتا ہے اور معاشرہ Ú©ÛŒ بہبود Ùˆ ترقی Ú©ÛŒ خاطر اپنی تمام قوتوں سے کام کرتا ہے۔ ایسے Ø+اکم Ú©Ùˆ معاشرے کا سب سے شریف اور بلند ترین فرد تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افلاطون Ù†Û’ بھی اسی قسم Ú©ÛŒ Ø+کومت Ú©ÛŒ خواہش Ú©ÛŒ ہے لیکن شرط یہ لگائی کہ واØ+د شخص جو فلسفی ہونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ جنگجو ہو Ø+کمران بنے اور اس Ú©ÛŒ زندگی معاشرے Ú©Û’ لیے وقف ہو۔ وہ نہ تو کوئی ذاتی جائیداد بنا سکے اور نہ ہی کسی نجی ملکیت کا دعویدار بن سکے۔ لیکن ارسطو Ú©ÛŒ ملوکیت مشکل شرائط پر مبنی نہیں بلکہ اس Ú©Û’ خیال میں کوئی ایسا مناسب فرد جو عمومی مسائل Ú©Ùˆ اچھی طرØ+ سمجھ سکتا ہو اور ان Ú©Û’ Ø+Ù„ کرنے میں اپنی معاملہ فہمی Ú©Û’ ذریعے معاشرے کا مدد گار بن سکتا ہو وہ سربراہِ سلطنت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اشرافیہ
ایسی طرز Ø+کومت میں چند ایسے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے جو نیک ہونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ دولت مند بھی ہوتے ہیں لیکن سب کا مقصد ایک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست Ú©ÛŒ فلاØ+ Ùˆ بہود Ú©ÛŒ خاطر تمام وسائل Ú©Ùˆ بروئے کار لا کر خاطر خواہ، سود مند نتائج نکالنا۔ ارسطو کا خیال ہے کہ اشرافیہ Ú©ÛŒ ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب پہلے بادشاہ پر لوگوں کا اعتبار قائم نہ رہے اور وہ اپنے فرائض سے کوتاہی برتے۔ دوئم یہ کہ فرد ِواØ+د Ú©ÛŒ Ø+کمرانی Ú©Ùˆ آمریت میں بدلنے Ú©Û’ آثار نمایاں ہوں۔ یا واقعی بادشاہ خود Ú©Ùˆ استبدادی نوعیت کا آمر قرار دے کر خود غرضی کا مظاہرہ شروع کر دے۔ اس Ú©Û’ علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فردِ واØ+د جس Ú©Û’ ہاتھ میں تمام کاروبارِ سلطنت دے دیا جائے اور جس Ú©Ùˆ معاشرے کا مالک بنا دیا جائے اور جس پر عوام Ù†Û’ اس قدر اعتبار کیا ہو کہ وہ عوامی مفادات Ú©Û’ تØ+فظ Ú©Û’ لیے اپنے مفادات Ú©Ùˆ قربان کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، جب ذاتی مفادات Ú©ÛŒ خاطر عوام Ú©Û’ مفادات Ú©Ùˆ کچلنا شروع کر دے تو عمومی Ø+قوق Ú©Ùˆ تہہ Ùˆ بالا کر دے گا۔ معاشرتی ترقی Ú©ÛŒ راہوں Ú©Ùˆ برباد کرکے ماضی Ú©ÛŒ روایات Ú©Ùˆ تباہ کر دے گا اور انصاف Ú©Ùˆ کھلونا تصور کرے گا۔ اس وقت معاشرہ میں سے Ú©Ú†Ú¾ لوگوں کا مطالبہ شروع ہوگا کہ ایسے Ø+کمران سے اختیارات واپس Ù„Û’ لو اور اس Ú©ÛŒ جگہ Ø+کمرانوں Ú©ÛŒ ایک کونسل بنائی جائے جس میں معاشرے Ú©Û’ بااعتماد لوگوں Ú©Ùˆ Ø+کومت بنانے کا اختیار ہو۔ اس سے یہ مقصد Ø+اصل ہوگا کہ کوئی فردِ واØ+د اپنی من مانی نہیں کرے گا اور Ø+کمرانوں Ú©ÛŒ وہ کونسل جسے ''اشرافیہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے یہ سب ایک دوسرے سے مشورہ کرکے معاشرے Ú©ÛŒ ترقی Ú©Û’ لیے کام کریں Ú¯Û’Û” دوسرے یہ کہ اس کونسل Ú©Û’ وجود میں آنے سے معاشرے Ú©Û’ بہت سے طبقوں Ú©Ùˆ نمائندگی Ø+اصل ہو جائے Ú¯ÛŒ اور عوام Ú©Ùˆ ایک خاص نوعیت کا سکون مل جائے گا اور باہمی تعاون سے معاشرے Ú©ÛŒ ترقی Ú©Û’ مواقع زیادہ سے زیادہ ملیں Ú¯Û’Û”
دستوری Ø+کومت
یہ اس طرزِ Ø+کومت کا نام ہے جس میں اشرافیہ طرزِ Ø+کومت سے بھی زیادہ لوگ ریاست پر Ø+کومت کرنے Ú©Û’ اختیارات رکھتے ہیں اور یہ سب Ú©Û’ سب باہم آپس میں مل کر ریاست Ú©ÛŒ بہبود Ùˆ مضبوطی اور ارتقاء Ú©Û’ لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ طرز Ø+کومت جمہوریت Ú©Û’ بہت نزدیک انداز Ú©ÛŒ طرزِ Ø+کومت ہے۔ اس میں مقررہ معیار Ú©Û’ لیے معاشرے ہی میں سے Ú©Ú†Ú¾ لوگوں کا انتخاب اس لیے کر لیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے Ú©Û’ استØ+کام Ùˆ تØ+فظ اور معاشرے Ú©ÛŒ ترقی Ú©Û’ لیے کام کر سکیں۔ قدیم ادوار میں ایسی Ø+کومتیں بہت ہی Ú©Ù… وجود میں آئی تھیں۔ اول تو لوگ ملوکیت Ú©Ùˆ زیادہ اØ+سن طرزِ Ø+کومت تصور کرتے تھے اور اگر وہ کسی غیر معمولی Ø+الت Ú©ÛŒ وجہ سے ملوکیت سے مطمئن نہیں رہتے تھے تو اشرافیہ اس Ú©ÛŒ جگہ Ù„Û’ لیتی تھی۔ دستوری Ø+کومت کا نظریہ اگرچہ قدیم ادوار میں ملتا ہے لیکن اس Ú©ÛŒ پسندیدگی اور اس پر عملی کاربندی دورِ Ø+اضر میں زیادہ ملنے Ù„Ú¯ÛŒ ہے۔
ارسطو Ú©Û’ نزدیک بادشاہت اور اشرافیہ سب سے بہتر نظام ہائے Ø+کومت ہیں لیکن انسانی فطرت Ú©Û’ رجØ+انات Ú©Ùˆ مدنظر رکھتے ہوئے اس بات پر مائل ہے کہ ''معتدل جمہوریت‘‘ یا دستوری Ø+کومت ہو۔ ارسطو بگڑی ہوئی Ø+کومتوں Ú©ÛŒ برائیوں Ú©Û’ بارے میں یوں اظہارِ خیال کرتا ہے کہ جابرانہ Ø+کومت بادشاہت Ú©ÛŒ وہ قسم ہے جس میں صرف بادشاہ Ú©Û’ مفاد Ú©Ùˆ مدنظر رکھا جاتا ہے اور جمہوریت میں ضرورت مندوں Ú©Û’ مفادات کا۔
ارسطو ذاتی طور پر مندرجہ ذیل پانچ قسموں کی بادشاہت کو درست تسلیم کرتا ہے۔
Ù+سپارٹا Ú©ÛŒ طرزِ Ø+کومت
Ù+ مشرقی وراثتی اندازِ Ø+کومت
Ù+قدیم طاقتور بادشاہ Ú©ÛŒ Ø+کومت
Ù+مسلسل نتیجہ آمر Ú©ÛŒ Ø+کومت
Ù+ فلسفی بادشاہ Ú©ÛŒ Ø+کومت
ارسطو Ù†Û’ جو اقسام طرز Ø+کومت بیان Ú©ÛŒ ہیں، ان میں سے ایک بھی آج Ú©Û’ دور میں قابل عمل نہیں ہے اور جس طرز Ø+کومت Ú©Ùˆ ارسطو Ù†Û’ بہتر تسلیم کیا ہے وہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ کامیاب طرزِ Ø+کومت ثابت ہو رہی ہے یعنی جمہوریت۔ دراصل ارسطو Ù†Û’ جمہوریت Ú©Ùˆ منصفانہ انداز سے دیکھا تھا اس لیے اس قسم کا نظریہ قائم کیا۔
(کتاب :''ارسطو Ø+یات ØŒ فلسفہ اور نظریات‘‘ سے منقبس)